عورت مارچ کیس: لاہور ہائیکورٹ کا توہین عدالت کی درخواست پر ضلعی انتظامیہ سے جواب طلب

01-29-2025

(لاہور نیوز) لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے عورت مارچ سے متعلق احکامات نظر انداز کرنے کیخلاف دائر توہین عدالت کی درخواست پر ضلعی انتظامیہ سے جواب طلب کر لیا گیا۔

لاہور ہائیکورٹ میں خواتین کے 12 فروری کو عورت مارچ کرنے کے پروگرام سے متعلق احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس انوار حسین  نے خواتین لینہ غنی، نیلم حسین، فاطمہ جان اور شیرین عمیر کی درخواست پر سماعت کی، دوران سماعت پنجاب حکومت کی طرف سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل محمد عثمان خان پیش ہوئے۔ درخواست گزاروں کی جانب سے ڈپٹی کمشنر، ڈی آئی جی آپریشنز اور سی ٹی او لاہور کیخلاف توہین عدالت کی دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ڈی سی لاہور کو عورت مارچ کیلئے اجازت کی درخواست دی لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا، درخواست گزاروں کے وکیل ذیشان ظفر ہاشمی نے کہا کہ عورت مارچ درخواست گزاروں کا بنیادی حق ہے، کسی شہری کو پرامن احتجاج سے نہیں روکا جا سکتا۔ ایڈووکیٹ ذیشان ظفر ہاشمی نے کہا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے ڈی سی لاہور کو 10 جنوری اور 14 جنوری کو 12 فروری کو لاہور پریس کلب سے ایجرٹن روڈ تک منعقد ہونے والے عورت مارچ کی سکیورٹی اور تعاون کیلئے درخواستیں دائر کی گئیں۔ وکیل نے درخواست میں نکتہ اٹھایا کہ 2023 میں بھی فریقین ایسے ہی حیلے بہانے استعمال کر رہے تھے جس بنا پر عدالت عالیہ کو عورت مارچ کے حوالے سے فیصلہ جاری کرنا پڑا، جس کے مطابق فریقین کی ذمہ داری تھی کہ عورت مارچ کی تنظیم سے تعاون اور سیکورٹی فراہم کریں۔ عدالت سے استدعا ہے کہ ڈی سی آفس سمیت دیگر فریقین کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے اور 2023 کے عورت مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے فریقین کو ہدایت جاری کی جائے۔ جسٹس انوار حسین نے کہا کہ اب  اس وقت کیا ایشیو ہے؟ خواتین بھی یہاں ہیں، عورت مارچ کا معاملہ بار بار کیوں آ رہا ہے؟ جس پر اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل محمد عثمان  نے توہین عدالت سے متعلق درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کسی عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ڈپٹی کمشنر سید موسیٰ رضا سمیت دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 3 فروری تک جواب طلب کر لیا۔