عدالت کا پنجاب کے دارالامان سے تمام مرد ملازمین کو ہٹانے کا حکم

12-24-2024

(لاہور نیوز) لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کو تمام دارالامان سے مرد ملازمین کو ہٹانے، شیلٹر ہومز کی مانیٹرنگ کیلئے ڈیٹا بیس اور سافٹ ویئر بنانے اور تمام دارالامان کے داخلی راستے اور احاطے میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا حکم دے دیا۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور دیگر کی لاہور ہائیکورٹ میں درخواست میں دارالامان میں بچیوں کے حفاظتی اقدامات نہ ہونے، خواتین کے حقوق اور چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ پر عمل درآمد نہ کرنے کے اقدامات کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے تمام دلائل مکمل ہونے کے بعد 36 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں عدالت نے قرار دیا کہ حکومت پنجاب تمام شیلٹر ہومز اور حفاظتی سینٹر کو ریگولیٹ کرنے کیلئے 6 ماہ میں خواتین تحفظ ایکٹ 2016 کے تحت رولز بنائے، 6 ماہ میں بچوں کے تحفظ کے اداروں کو چلانے کیلئے رولز بنائے، حکومت پنجاب ہر ضلع میں خواتین کے تحفظ کی کمیٹیاں بنائے، پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی ضلعی ویمن پروٹیکشن افسروں سمیت حفاظتی سسٹم کے تمام ملازمین کی ٹریننگ کروائے۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ ہر ضلع کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کم از کم 2 ماہ میں ایک مرتبہ متعلقہ دارالامان کا جائزہ لیں، دارالامان میں رہنے والی خواتین کی معاشی بحالی کیلئے انہیں پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی جائے۔ عدالت نے حکم دیا کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو بچوں کی حفاظت کے اداروں کیلئے ریگولیشنز بنائے، بچوں کی حفاظت کے تمام اداروں کی رجسٹریشن یقینی بنائے، تحصیل اور ضلعی سطح پر بھی چائلڈ پروٹیکشن یونٹس قائم کرے، دارالامان، شیلٹر ہومز کے حوالے سے متعلقہ ویب سائٹ پر تمام معلومات فراہم کی جائیں۔ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق دارالامان اور دارالفلاح حکومت پنجاب رولز آف بزنس 2011 کے تحت قائم کیے گئے ہیں، یہ ادارے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے وقتاً فوقتاً جاری کردہ اصولوں کے مطابق چلتے ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ بات غیر واضح ہے کہ کس قانون کے تحت وفاقی وزارت ویمن ڈویلپمنٹ نے کرائسز سنٹر قائم کیے، ویمن پروٹیکشن ایکٹ 2016 کے تحت پنجاب کے تمام اضلاع میں شیلٹر ہومز اور حفاظتی مرکز قائم ہونا تھے، مذکورہ ایکٹ کے تحت ملتان کے علاوہ کسی دوسرے ضلع میں شیلٹر ہومز اور حفاظتی مرکز قائم نہیں ہوئے، باقی اضلاع میں موجود دارالامان اور کرائسز سنٹرز کو حفاظتی مرکز قرار دیا گیا ہے۔ ویمن پروٹیکشن ایکٹ 2016 کے مطابق حکومت پنجاب کو ہر ضلع میں ویمن پروٹیکشن کمیٹی قائم کرنا ہے مگر صرف ملتان میں ایک کمیٹی فعال ہے جو کہ بغیر ایس او پیز کے کام کر رہی ہے، پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی کی جانب سے شیلٹر ہومز کیلئے کوئی بھی ایس او پیز نہیں بنائے گئے۔ عدالت نے پنجاب کے تمام دارالامان سے مرد ملازمین کو ہٹانے کا حکم دے دیا، عدالت نے حکومت پنجاب کو شیلٹر ہومز کی مانیٹرنگ کیلئے ڈیٹا بیس اور سافٹ وئیر بنانے کے ساتھ ساتھ تمام دارالامان کے داخلی راستے اور احاطے میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا حکم بھی دیا۔