ملک میں کپاس کے بحران کا خدشہ پیدا ہوگیا

12-15-2024

(ویب ڈیسک) ملک میں گندم کی طرز پر کپاس کا بحران بھی پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

تفصیلات کےمطابقچیئرمین کاٹن جنرز فورم نے بتایا کہ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب کے اعداد و شمار کے مطابق 31اکتوبر تک پاکستان میں بیرون ملک سے روئی کی 8لاکھ گانٹھ جبکہ سوتی دھاگے کے 4لاکھ 50ہزار گانٹھوں کے لگ بھگ درآمدات ہوئی ہیں لہٰذا یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 30نومبر تک روئی کی 11لاکھ جبکہ سوتی دھاگے کی 6لاکھ گانٹھوں کی مساوی روئی درآمد ہوچکی ہے اور یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان بیرون ملک سے اب تک روئی کی 35لاکھ گانٹھوں کے درآمدی معاہدے کرچکے ہیں اور مزید نئے معاہدے بھی تیز رفتاری کے ساتھ کیے جا رہے ہیں۔امکان ہے کہ پاکستان کاٹن ایئر 2024-25 کے دوران روئی کی کم از کم 50لاکھ گانٹھ اور سوتی دھاگے کی 10لاکھ روئی کی گانٹھوں کے مساوی درآمدات ہونگی جو ملکی تاریخ میں روئی کی ایک سال کے دوران سب سے زیادہ درآمدات ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیوٹی فری درآمد ہونے کے باعث اندرون ملک روئی اور پھٹی کی فروخت کا عمل مکمل طور پر تعطل کا شکار ہونے سے ناصرف غلہ منڈیوں میں کپاس اور جننگ فیکٹریوں میں روئی کے وسیع ذخائر دستیاب ہیں بلکہ ان کی قیمتوں میں بھی بڑی تیزی سے کمی واقع ہونے سے پوری کاٹن انڈسٹری و کاشت کار تشویش میں مبتلا ہیں اور کچھ ہی عرصے پہلے 18ہزار 500روپے فی من فروخت ہونے والی روئی کی قیمتوں میں ایک ہزار روپے فی من سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے اور خدشہ ہے کہ گندم کی طرح کپاس کے خریداروں میں بھی بڑی تیزی سے کمی واقع ہوگی جو پاکستان کی صنعتی و زرعی معیشت کے لیے ایک بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ چیئرمین کاٹن جنرز فورم نے وزیر اعظم شہباز شریف سے اپیل کی ہے کہ بیرون ملک سے روئی اور سوتی دھاگے کی درآمد پر سیلز ٹیکس کا نفاذ جبکہ اندرون ملک اسے فوری طور پر ڈیوٹی فری کیا جائے تاکہ کاٹن انڈسری اور زراعت دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے کے ساتھ اربوں ڈالر زرمبادلہ بھی بچایا جاسکے۔